سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) ہر بدعت گمراہی ہے

  • 11314
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5139

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘

اور عمر بن خطاب رضی اللہ  عنہ کے قول:[نعمت البدعۃ ھذہ] ’’یہ اچھی بدعت ہے‘‘ ‘ کے درمیان موافقت کیسے ہو گی؟ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی بدعت حسنہ (اچھی )نہیں اور دوسرے اثر سے یہ معلوم ہو رہا  ہے کہ بدعتوں میں بعض حسنہ بھی ہیں ۔

اخوکم فی اللہ :عبد الحکیم طالب علم : 9 ربیع الثانی 1414 ھ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

جان لو اللہ تعالی میری اور آپ کی حفاظت فرمائے کہ بدعت میں حسنہ بالکل نہیں بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے جیسے ہمارے فصیح و بلیغ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔اور جو بدعت کو تقسیم کر کے پانچ قسمیں بتاتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں‘کیونکہ بدع حسنہ کی مثالوں میں انہوں نے مدارس و مورچے تعمیر کرنا‘علوم الیہ جیسے صرف ونحو یہ سب شرعی قاعدہ کلیہ کے  تحت داخل  ہیں جو اس باب میں وارد ہے اس لیے ان کا بدعت  سے تعلق نہیں۔رہی دونوں حدیثوں میں موافقت تو ہم کہتے ہیں۔

امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر :(1/161) ‘ میں کہا ہے ہر نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں جسیے صحیح مسلم میں آیا ہے‘’’کہ ہر نئی چیز بدعت ہے‘‘بدعت کی دو قسمیں ہیں کبھی بدعت سے مراد شرعی بدعت ہوتی ہے جیسے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: [كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ](ہر بدعت گمراہی ہے)‘اور کبھی لغوی بدعت مراد ہوتی ہے جسیے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے جب انہوں نے لوگوں کو نماز تراویح باقاعدہ پڑھنے کے لیے اکٹھا  کیا کہ۔یہ اچھی بدعت ہے۔

تو امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے دونوں روایتوں میں تطبیق کی طرق اشارہ کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ حسنہ اور سیئہ یہ لغوی بدعت میں ہوتی ہیں ‘شرعی بدعت میں نہیں وہ سب کی سب سیئہ ہیں بمطابق نص رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کوئی بھی حسنہ نہیں۔

اور ضیاء النور  ص :(23) میں ہے:’’محمد بن اسماعیل الامیر کہتے ہیں‘’’میرا خیا ل تو ہے یہ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم بھی من جملہ بدعات میں سے ہے‘‘۔

ابن حجر الہیشمی اپنے فتاوٰی حدیثیہ  ص:(206) میں کہتے ہیں اور اسی طرح اور ضیاء النور ص :( 26) میں بھی ہے:’’بعض نے بدعت کی ایسی تعریف  کی ہے جو ما قبل مذکور سب کو شامل ہے اور کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس کے وجوب و استحباب کی شرعی دلیل نہ ہو بدعت ہے خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وہ کیا گیا ہو یا نہیں جیسے یہودو نصارٰی کو جزیرہ عرب سے  نکالنا اور مشرکوں کے ساتھ قتال تو جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہی کئے گئے ہیں تو یہ بدعت نہیں اگرچہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو زمانے میں یہ کام نہیں کئے گئے ۔اس طرخ قرآن کو مصحف کی شکل میں اکٹھا کرنا اور ماہ ومضان کا قیام با جماعت ادا کرنا وغیرہ ‘تو اس کا وجوب یا استحباب شرعی دلیل سے ثابت ہے۔

اور تراویح کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا’’یہ اچھی بدعت ہے‘‘میں ان کی مراد لغوی بدعت ہے یعنی وہ کام کرنا جس کی پہلے مثال نہ ہو جیسے اللہ کا یہ قول ہے: [قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ]آپ کہہ دیجیئے کہ میں کوئی بالکل انوکھا پیغمبر تو نہیں۔(احقاف 9)۔

اور یہ شرعی بدعت نہیں ‘بدعت شرعی بمطابق فرمان رسولصلی اللہ علیہ وسلم گمراہی ہے‘اور علماء نے جو حسن کی تقسیم کی ہے تو یہ لغوی بدعت کی ہے اور جس نے بدعت کو گمراہی کہا ہے تو رہاں شرعی بدعت مرا د ہے۔انتھیٰ۔

شیخ الاسلام مجموع الفتاوٰی (10/370) میں اپنی کلام کے ضمن میں فرماتے ہیں:

’’اس بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ بدعت فی الدین جو اصل میشن کتاب و سنت کی دلالت کے مطابق مذموم ہے خواہ اس کا تعلق قول سے ہو یا فعل سے اور میں دوسرے مقام پر یہ لکھ چکا ہوں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول :’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘کی عموم کی حفاظت ضروری ہے‘اس کے عموم پر عمل کرنا واجب ہے ۔اور جو بدعات  کے حسن و قبیح پر  کتاب لکھنی شروع کر دے اور اسے ذریعہ بنائے کہ بدعت کی ممانعت کی کوئی حاجت نہیں تو وہ غلطی پر ہے‘جیسے فقیہ و متکلم صوفی و عابد کا لبادہ اوڑھ کر ایک جماعت یہ کام کر رہی ہے‘

دین میں بدعت پر بحث کرتے ہوئے  وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کوئی بدعت مکروہ نہیں‘مکروہ صرف وہی ہے جس سے نہی کی گئی ہو‘جس  کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گمراہی صرف وہ ہے جس سے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہو یا جو حرام یا نص نبوی کے مخالف ہو‘تو یہ محتاج بیان نہیں بلکہ جو دین میں مشروع نہیں وہ گمراہی ہے۔اور جس پر بدعت نام کا اطلاق ہو اور شرعی دلائل سے اس کا اچھا ہونا ثابت ہو جائے تو اس میں دو باتوں میں سے ایک لازمی ہو گی۔یا تو کہا جائے گا یہ دینی بدعت نہیں اگرچہ لغوی لحاظ سے اسے بدعت کا نام دے دیا گیا ہے جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’یہ اچھی بدعت ہے‘‘ یا کہا جائے گا  کہ بدعت کے عموم سے یہ صورت راحج معارض کی وجہ سے خاص ہو گئی ہے اس کے علاوہ عموم کے مقتضی ٰ پر بدستور باقی ہیں۔جیسے کتاب و سنت کے دیگر تمام عمومات کا معاملہ ہے‘یہ مسئلہ میں اقتضاء الصراط المستقیم اور قاعدہ السنہ و البدعۃ میں ثابت کر چکا ہوں۔

امام شاطبیرحمہ اللہ تعالی کتاب الاعتصام :(1/191) میں بدعت کی پانچ قسمیں قرار دینے والے علماء کے اقوال ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :جواب:یہ تقسیم من گھڑت ہے جس پر کوئی دلیل شرعی دلالت نہیں کرتی ‘بلکہ اس تقسیم میں تناقض ہے‘کیونکہ بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ اس پر شرعی نص یا شرعی قاعدے میں سے کوئی دلیل  شرعی دلالت نہ کرتی ہو کیونکہ اگر وہاں وجوب ندب اور اباحت جیسے شرعی احکام کی کوئی دلیل ہے تو وہ پھر بدعت نہیں بلکہ وہ ان اعمال میں شامل ہے جو مامور بھا (واجب یا مخیر فیھا(مندوب) ہیں ۔ان چیزوں کو بدعت کہنا اور پھر ان کا وجو ب یا ندب یا اباحت دلائل سے ثابت کرنا یہ جمع بین المتنا فیین ہے۔

آگے چل کر کہا ہے‘’’بدعت لغوی قابل تقسیم ہے بدعت شرعی نہیں بلکہ یہ سب  کی سب سیئہ ہیں۔

السنن والمبتدعات ص :(15) ‘میں بدعت کی تعریف ذکر کرنے کے بعد کہا ہے ‘’’بدعت کی دینی اور دنیوی تقسیم یہ سب بدعت فی الدین ہے اور گمراہی ہے جیسے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے بطور نص ثابت ہے ۔ہمارے لیےیہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں فرمائیں ‘’’یہ گمراہی اور آگ میں ہے‘‘ اور ہم اس میں تغیر و تاویل اور تحریف کر کے یہ کہیں کہ یہ مستحسن ہے‘ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ کبھی بدعت ضلالۃ صریح کفر ہوتی ہے ‘کبھی حرام اور گناہ کبیرہ ہوتی ہے‘پھر اس کی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘’’بعض فقہائے متأخرین کا اسے پانچ اقسام میں تقسیم  کرنا ‘ان کا خیال اور غلط ہے۔یقیناً گمان‘حق(کی معرفت)میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا‘‘(یونس :36) ‘بلکہ یہ ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس مخالفت ہے جنہوں نے فرمایا ہے‘’’کہ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘اور ای آیت میں مذکور وعید میں حصہ دار ہیں۔

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ...١١٥﴾...سورة النساء

اور جو باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مؤمنوں کی راہ چھوڑ کر چلےہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے)۔

ہاں وہ بدعات جن کا تعلق دنیوی اور معاشی مصالح و منا فع سے ہو تو جب تک اس میں نفع ہو نقصان نہ ہو نہ ہی لوگوں کے لیے شرکا سبب  ہو‘حرام کے ارتکاب کا موجب نہ ہو‘اور دین کے قاعدےکو منھدم نہ کرتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنی دنیاوی و معاشی مصلحت کے لیے نت چیزیں ایجاد کرنا مباح کیا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص81

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ