سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) نماز کے لیے جسم کے حصے کو ڈھانپنا چاہیے

  • 11258
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1860

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گرمی کے موسم میں دوران نماز مکمل جسم ڈھانپنا چاہیے یاکندھوں پر رومال وغیرہ ڈا ل لیا جائے تو اتنا ہی کافی ہے، قرآ ن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔(محمد فاروق ناگی، گوجرانوالہ خریداری نمبر 3742)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازی کے لئے ضروری ہے کہ دوران نماز اپنے ستر کے سمیت دونوں کندھوں کو بھی ڈھانپ کرنماز پڑھے۔مرد حضرات کاستر ناف سے گھٹنوں تک ہے جب کہ عورتوں کا سار جسم ہی ستر ہے۔ مردوں کے لئے اپنے ستر کے علاوہ کندھوں کاڈھانپنا بھی ضرور ی ہے۔جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کچھ نہ ہو۔''(صحیح بخاری :الصلوۃ 259)

نیز حضرت عمر و بن ابی سلمۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ ایک کپڑے میں نماز بایں طور پر پڑھتے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈال رکھا تھا۔(صحیح بخاری الصلوۃ 356)

ان احادیث کے پیش نظر ایک ستر پوش نمازی کے لئے یہ گنجائش ہےکہ وہ صرف رومال وغیرہ کندھوں پر ڈال کر نماز پڑھ لے یا بازوؤں والی بنیان پہن لے۔ ہاں اگر رومال وغیرہ کندھوں پر ڈالا ہے تو اس کے دونوں کناروں کو کھلا نہ چھوڑا جائے۔ بلکہ اس کی گرہ دے لی جائے کیوں کہ کپڑے کو کھلا چھوڑ دینا سدل ہے جس کی نماز میں ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز منہ ڈھانپنے اور سدل سے منع فرمایا ہے۔(ابو داؤد :الصلوۃ 643)

سدل یہ ہے کہ سر یا کندھوں پر اس طرح کپڑا ڈالاجائے کہ وہ دونوں طرف لٹکتا رہے، ہاں اگر سریا گردن پر کپڑے کو بل دے کر لپیٹ لیا،پھر اس کے دونوں کنارے لٹکیں تو یہ سدل نہیں ہے۔اور نہ ہی اس کی ممانعت ہے۔البتہ عورت کے لئے ضروری ہے کہ دوران نماز اس کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ ہو حتیٰ کہ اس کے قدم بھی ڈھکے ہوئے ہوں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورت اوڑھنی اور ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے جس میں اس کے قد م بھی چھپ جائیں۔(سنن بیہقی ،ج2 ص 232)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔(بلوغ المرام :حدیث نمبر 207)

تاہم اس قسم کی موقوف روایت مرفوع کے حکم میں ہے کہ اس میں مسئلہ بیان ہوا ہے، اس کا تعلق اجتہاد واستنباط سے نہیں ہے، صورت مسئولہ میں اگررومال وغیرہ سے کندھوں کو ڈھانپ لیا جائے تو اس میں نماز ہوجاتی ہے بشرطیکہ قابل ستر حصہ ڈھانپنا ہواہو۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:155

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ