سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) ننگے سر نماز پڑھنا

  • 11240
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1373

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ضلع گجرات سے لال خاں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے سر نماز پڑھتے تھے یا سر ڈھانپ کر۔ ان دونوں میں سے کون سا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی سنت کے قریب اور زیادہ اجروثواب کا باعث ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران نماز سر ڈھانپنے یا ننگا رکھنے کے متعلق ہم افراط وتفریط کا شکار ہیں۔کچھ حضرات اس سلسلہ میں اس قدر افراط کرتے ہیں کہ سرڈھانپے بغیر نماز پڑھنے کو مکروہ خیال کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف تفریط یہ ہے کہ کپڑا ہوتے ہوئے بھی ننگے سر نماز پڑھنے کو اپنی شناختی علامت باور کراتے ہیں ۔مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ دوران نماز عورتوں کے لئے سر ڈھانپنا ضروری ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی یعنی دوپٹے کے بغیر قبول نہیں فرماتے۔''(ابوداؤد: الصلوۃ 641)

مرد حضرات کےلئے یہ پابندی نہیں ہے۔ وہ ننگے سر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ایسا کرنا صرف جواز کی حد تک ہے، ضروری نہیں،لیکن بہتر ہے کہ دورن نماز اپنے سر کو پگڑی ،رومال یا ٹوپی وغیرہ سے ڈھانپا جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اے اولاد آدم :تم ہرنماز کے وقت اچھا لباس زیب تن کیاکرو۔''(3/آل عمران :31)

آیت کریمہ میں زینت سے مراد اعلیٰ قسم کا لباس نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس حصہ جسم کو ڈھانپ کر آؤ جس کا کھلا رکھنا معیوب ہے۔ چونکہ لباس والا جسم ننگے جسم کےمقابلہ میں مزین نظر آتا ہے، اس لئے لباس کو زینت سےتعبیر کیا گیاہے، اسلامی معاشرہ میں ننگے سر گھومتے پھرنا انتہائی معیوب ہے، سرڈھانپ کرچلنا انسان کے پروقار اور معزز ہونے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھتے تھے۔صرف حج کے موقع پراسے کھلا رکھنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ضروری ہے، ایسا کرنا حج کے شعائر سے ہے۔ اس پرقیاس کرکے ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے ،چنانچہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک رسالہ میں یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کو دیکھا کہ وہ ننگے سر نماز پڑھ رہا تھا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ اگر تمھیں لوگوں کے پاس جانا ہوتو اسی حالت میں چلے جاؤ گے؟ غلام نے جواب دیا نہیں، تب آپ نے فرمایا:''کہ پھر تو اللہ اس بات کازیادہ حق دار ہے کہ اس کے سامنے آنے کےلئے خوبصورتی اور آرائش اختیار کی جائے۔''(حجاب المرأۃ ولباسہا فی الصلوۃ)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں'' کہ جن الفاظ کے ساتھ مصنف نے اس حدیث کو نقل کیا ہے وہ جملے کسی کتاب میں نہیں مل سکے۔ممکن ہے کہ ننگے سر کا ذکر جو مصنف نے اس حدیث میں کیا ہے اس کا وجود کسی ایسی کتاب میں ہو جومجھے نہیں مل سکی۔''(حاشیہ حجاب المراۃ)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں:'' کہ میرے خیال کے مطابق بلاوجہ ننگے سر نماز پڑھنا نا پسندیدہ حرکت ہے کیوں کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ایک مسلمان کو نماز کی ادائیگی کے لئے اسلامی شکل وصورت اختیار کرنا ضروری ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کےلئے زینت اختیار کی جائے۔''(سنن بیہقی :ج2 ص 236)

ہمارے اسلاف کی نظر میں ننگےسر رہنا،اسی حالت میں بازاروں گلی کوچوں میں گھومتے پھرنا، پھر اسی طرح عبادت کے مقامات میں چلے آنا کوئی اچھی عادت نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ مغربی تہذیب کے برگ وبار ہیں۔جوہمارے متعدد اسلامی ممالک میں گھس آئے ہیں۔ جب مغربی تہذیب کے سلسلہ علمبردار اسلامی ممالک میں آئے تو اپنی عادات وخصائل بھی ساتھ لائے ،ان کی دیکھا دیکھی نا پختہ کار مسلمان بھی آنکھیں بند کرکے ان کی تقلید کرنےلگے۔اس طرح مسلمانوں نے اپنے اسلامی تشخص کو مجروح کرڈالا ہے۔(تمام المنۃ :ص 162)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قطعی ثابت نہیں ہے کہ آپ نے حالت احرام کے علاوہ ننگے سر نماز ادا کی ہو۔اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ اپنے مفہوم میں صریح نہیں ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو کتب حدیث وسیرت میں اس کا ضرور تذکرہ ہوتا۔جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج وعمرہ کے علاوہ ننگے سر نماز ادا کی ہے۔وہ دلیل پیش کرے۔

الغرض ننگے سر نماز ادا کرنا جائز ہے،واجب یا مستحب نہیں ہے۔ اسی طرح سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا مستحب تو ہے لیکن ضروری نہیں۔چنانچہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کوئی شخص ایک کپڑ ے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پرکچھ نہ ہو۔''(صحیح بخاری :الصلوۃ 359)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد کے لئے دوران نماز سر ڈھانپنا واجب نہیں بصورت دیگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کندھوں کے ساتھ سر کا بھی ذکر کردیتے۔البتہ یہ عمل مستحب ضرور ہے۔لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دینی چاہیے۔ ان دلائل وحقائق کے پیش نظر صورت مسئولہ میں پگڑی، رومال یا ٹوپی سے سر ڈھانپ کر نماز ادا کرنا سنت نبوی کے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے، نیز اس طرح اسلامی شکل وصورت میں نماز کی ادائیگی اللہ کے ہاں زیادہ اجر وثواب کاباعث ہوسکتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:136

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ