سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(104) دورانِ نماز شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنا

  • 11239
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2819

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صوابی سے اکرم نیازی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نماز کے وقت اپنی شلوار ٹخنوں سے اوپرکرے اور نماز کے بعد عام حالات میں اس کی پروانہ کرے تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟نیز ننگے سر نماز پڑھنے کی شرعی حیثیت بھی واضح کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل ٹخنوں کے اوپر کپڑا رکھنے کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ شاید یہ حکم صرف نماز کے لئے ہے، حالانکہ اس حکم کا تعلق صرف نماز سے نہیں بلکہ مطلق طور پر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:'' اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا جو تکبر غرور کرتا ہوا اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔''(صحیح بخاری :کتاب اللباس)

ایک دوسری حدیث کے متعلق کپڑا ٹخنوں سے نیچا کرنے کو تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتے۔ نماز کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ چادر یا شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو کیوں کہ ایسا کرنے سے نماز قبول نہیں ہوتی۔چنانچہ حدیث میں ہے:'' کہ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا جو ٹخنوں کے نیچے کپڑا لٹکاتاہو۔''(مسند امام احمد:4/67)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس جرم کی سنگینی بایں الفاظ بیان فرمائی ہے:'' کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو صرف ا س بنا پر زمین میں دھنسا دیا گیا کہ وہ متکبرانہ انداز میں اپنی چادر کو ٹخنوں کے نیچے لٹکا کرچلا کرتا تھا۔''(صحیح بخاری :کتاب الانبیاء)

البتہ عورتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ وعید سنائی تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا عرض کرنے لگیں کہ عورتیں اپنی چادر کے متعلق کیا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ وہ ایک بالشت ٹخنوں سے نیچے لٹکا سکتی ہیں۔''اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اتنی سی مقدار نیچے لٹکانے سے چلتے وقت عورتوں کے قدم کھل جائیں گے۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ایک ہاتھ کی مقدار کپڑا نیچے لٹکائیں اس سے زیادہ نہ ہو۔''(جامع ترمذی :کتاب اللباس)

مختصر یہ ہے کہ مسلمان کو ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی چادر یاشلوار اس کے ٹخنوں سے نیچے نہ ہونے پائے ۔ننگے سر نماز ہوجاتی ہے لیکن عام حالات میں اسے عادت نہ بنایاجائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام حالات میں ننگے سر نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ویسے بھی سر ننگا رکھنا اسلامی تہذیب نہیں بلکہ مغربی کلچر ہے جسے ہماری اکثریت نےبطور فیشن اپنالیا ہے۔بعض انتہا پسند حضرات اسے ''مردہ سنت '' خیال کرکے اس کے احیا ء کا بڑی سختی سے اہتمام کرتے ہیں۔ان کا یہ طرز عمل عامۃ الناس میں نفرت کا باعث ہے۔ اس لئے احتراز کیا جائے۔ کپڑا موجود ہونے کی صورت میں عام طور پر ننگے سر نماز پڑھنا، صرف جواز کی گنجائش ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:135

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ