سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) مرد اور عورت کی نماز میں فرق

  • 11224
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 997

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رحیم یار خان سے محمد ادریس بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ قرآن وحدیث کی رو سے مرد اور عورت کی نماز میں کیا فرق ہے۔اس کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے نمونہ بنا کر بھیجا ہےجیسا کہ قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے، لہذا نماز پڑھنے کی ہیئت وکیفیت اور مقدار ومعیار میں بھی آ پ کو نمونہ سمجھنا چاہیے۔ ایک دفعہ آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ سجدہ نیچے اتر کر ادا کیا ،آخر میں فرمایا:''کہ میں نے نماز کی ادائیگی کا یہ اسلوب اس لئے اختیار کیا ہے تاکہ تم لوگ میری اقتدا کرو اور میری نماز سیکھو۔''(صحیح بخاری :کتاب الجمعۃ 917)

اس حدیث میں نماز کے لئے مرد اور عورت کے درمیان فرق کرنے کی کوئی وضاحت نہیں ہے آپ کا طریقہ نماز مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے۔اسی طرح حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ہم قریب قریب ایک ہی عمر کے چند نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور تقریباً بیس دن تک آپ کی صحبت میں رہے، پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اب تم اپنے گھروں کولوٹ جاؤ،انھیں دین سکھاؤ اور نماز پڑھنے کی تلقین کرو، نیز جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا اسی طرح نماز پڑھتے رہو۔''(صحیح بخاری :کتاب الاذان 631)

یہ حدیث فیصلہ کن ہے کہ مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر فرق ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرمادیتے۔ ریئس المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا کے متعلق فرماتے ہیں:'' کہ وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور نہایت ہی عقل مند اور دین کی واقفیت رکھنے والی خاتوں تھیں۔''(صحیح بخاری کتاب الاذان 145)

اس اثر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لئے مرد اورعورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''کہ عورت نماز میں بالکل اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے۔''(مصنف ابن ابی شیبۃ 1/242)

طریقہ نماز کے علاوہ چند ایک چیزوں میں فرق ملحوظ رکھاگیا ہے۔مثلاً:

٭دوران نماز عورت کا پردہ سر سے پاؤں تک ہونا چاہیےحتیٰ کہ پاؤں بھی مستور ہوں۔(ابو داؤد) جبکہ مرد کے لئے یہ پابندی نہیں ہے۔

٭ جب عورت عورتوں کی امامت کرائے گی تو عورتوں کے آگے نہیں بلکہ ان کےدرمیان کھڑی ہوگی۔ (مستدرک حاکم) جبکہ مرد امامت کے لئے آگے کھڑا ہوگا۔

٭ امام جب بھول جائے تو عورت تالی بجاکر اسے متنبہ کرے گی۔(صحیح بخاری) جبکہ مرد سبحان اللہ کہہ کر  امام کو خبر دار کردے گا۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں جو فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک، نیز عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد ناف کے نیچے یا عورت بحالت سجدہ اپنے بازوؤں کو زمین پر بچھا دے۔یہ سب بے بنیاد اور خودساختہ ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:130

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ