سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) فرض نماز کے بعد دعا مانگنا

  • 11210
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1227

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رحیم یار خان سے ڈاکٹر سید محمد افضال شاہ خریداری نمبر 2586 لکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل سوالات کا جواب کتاب وسنت کی روشنی میں دیں۔

٭ ہمارے ہاں اما م صاحب فرض نماز پڑھانے کے بعددعا نہیں مانگتے، کہتے ہیں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔وضاحت فرمائیں۔

٭نماز پنجگانہ کتنی رکعات ہیں، ہرنماز کی رکعات مفصل تحریر فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے بعد اگر کوئی انفرادی طور پردعا مانگتا ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، البتہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت محل نظر ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی روایات پیش کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں۔اگر صحیح ہیں تو مدعا ثابت کرنے کے لئے صریح نہیں ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال رہے ، پانچوں وقت اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نمازیں پڑھائیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز یں ادا کیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ اسے معمول بنا لینا سنت کے خلاف ہے۔اگر کوئی امام صاحب سے استدعا کرے تو اس کی تعمیل پر اجتماعی دعا کی جاسکتی ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔(واللہ اعلم)

٭ نماز پنجگانہ کی فرض رکعات حسب ذیل ہیں:

نماز فجر دو فرض' نماز ظہر چار فرض'نماز مغرب تین فرض اور نماز عشاء چار فرض'نماز جمعہ دوفرض۔نماز پنجگانہ کی سنت رکعات حسب ذیل ہیں:

٭ حضرت ام حبیبہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جو شخص دن اور رات میں(فرض رکعات کے علاوہ بارہ رکعات پڑھے اس کے لئے جنت میں ایک محل تیار کیا جاتا ہے۔ چار رکعات ظہر سے پہلے، دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، د و رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے۔''(ترمذی :الصلوۃ 415)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :'' کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعات(سنت ) پڑھے۔''(صحیح مسلم :صلوۃ المسافرین 729)

اس حدیث سے معلوم ہواکہ ظہر سے پہلے چار سنت کے بجائے دو رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ان بارہ رکعات کو سنن مؤکدہ کہا جاتا ہے،ان کے علاوہ کچھ سنتیں غیر موکدہ بھی ہیں مثلاً

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جوشخص عصر سے پہلے چار رکعت(سنت) پڑھے اللہ اس پر رحم کرے۔''(صحیح مسلم: صلوۃ المسافرین 730)

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا:'' کہ مغرب سے پہلے دو رکعات ادا کرو، تیسری بار فرمایا کہ جس کا دل چاہے۔'' یہ اس لئے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت موکدہ نہ بنا لیں۔(صحیح بخاری التہجد 1183)

٭ جمعہ سے پہلے نوافل کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں ہے، حدیث میں ہے:'' کہ جوشخص غسل کرکے جمعہ کے لئے آئے اور خطبہ شروع ہونے تک جس قدرہوسکے نوافل ادا کرتا رہے، پھر خطبہ جمعہ شروع سے آخر تک خاموشی سے سنے تو اس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔(صحیح مسلم، الجمعۃ 857)

٭جمعہ کے بعدچار رکعات سنتیں پڑھنا چاہیں جیسا کہ حدیث میں ہے '' کہ جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہو تو چار رکعات ادا کرو۔''(صحیح مسلم الجمعہ 881)

اگر کوئی گھر آکر پڑھنا چاہے تو دو رکعات ہی کافی ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد کچھ نہیں پڑھا کرتے تھے تا آنکہ اپنے گھر آتے اوردو رکعات پڑھتے۔(صحیح بخاری الجمعہ 937)

نماز عشاء کے ساتھ ہم نے وتروں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وتر عشاء کی نماز کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وتر تہجد کا حصہ ہیں جو تہجد کے ساتھ ملا کر پڑھے جاتے ہیں،جوحضرات رات کو اٹھنے کے عادی نہ ہوں شریعت نے انہیں سہولت دی ہے کہ وہ نماز عشاء کے ساتھ انہیں پڑھ لیں ،حدیث میں ہے :'' جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا و ہ اول شب ہی میں وتر پڑھ لے۔''(صحیح مسلم صلوۃ المسافرین 755)

ان فرائض وسنن کے علاوہ نوافل کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں ہے، آپ حضرات اپنی خوشی سے جس قدر چاہیں نوافل پڑھ سکتے ہیں۔لیکن ان نوافل کو فرائض کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ قیامت کے دن جب نماز کے متعلق باز پرس ہوگی تو فرائض کی کمی کو نوافل وسنن سے پورا کیا جائے گا۔اس لئے فرائض کی حفاظت کے لئے سنن اور نوافل ادا کرنے چاہئیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:122

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ