سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) ''الصلوۃ خیرمن النوم'' کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں یا دوسری اذان میں؟

  • 11175
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1219

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماسٹر صدیق صاحب کالا باغ ضلع ایبٹ آباد سے دریافت کرتے ہیں کہ''الصلوة خیرمن النوم'' کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں یا دوسری اذان میں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں بعض معاصر اہل علم کی جدید تحقیق یہی ہے کہ''الصلوة خیرمن النوم'' کے الفاظ صبح کی پہلی اذان میں کہے جائیں۔اور حدیث میں جو اذان شب کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اس اذان کے ذریعے سوئے ہوئے کو متنبہ کردیا جائے ،اس کا تقاضا بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن سبیل المومنین کے طور پر امت میں جو شروع سے عمل چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ان الفاظ کو دوسری اذان میں کہا جائے، اس کی بنیاد یہ ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ من السنة اذا قال المؤذن في اذان الفجر حي علي الصلوة قال الصلوة خير من النوم‘‘(صحیح ابن خزیمه 1/202)

سنت یہ ہے کہ جب مؤذن صبح کی اذان میں '' حي علي الصلوة '' کہے تو اس کے بعد''الصلوة خیرمن النوم'' کہے۔ صحابی کا اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا حدیث مرفوع کاحکم رکھتا ہے۔ اس طرح روایات میں ہے کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اذان فجر میں ''الصلوة خیرمن النوم'' کہتے تھے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، باب کیف الاذان)

اور یہ طریقۂ اذان انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔

رات کی اذان میں یہ الفاظ ثابت نہیں ،البتہ بعض روایات میں ''فی الاولیٰ من الصبح'' صبح کی پہلی اذان میں یہ الفاظ کہنے کی تصریح ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کی دو اذانیں ہیں ایک طلوع فجر کے بعد اور دوسری اقامت الصلوۃ کے وقت جسے عام طور پراقامت کہا جاتا ہے، اس اقامت کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان سے تعبیر فرمایا ہے، چنانچہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’بين كل اذانين صلوة‘‘ (ابوداؤد)

ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ان دونوں سے مراد اذان عرفی اور اقامت ہے، مختصر یہ ہے کہ ''الصلوة خیرمن النوم'' کے الفاظ طلوع فجر کے بعد دی جانے والی اذان میں کہے جائیں ،رات کی اذان میں ان الفاظ کی ادئیگی محل نظر ہے۔

نوٹ:ہمارے ہاں رات کی اذان کو اذان تہجد کہا جاتا ہے،یہ درست نہیں بلکہ یہ سحری کی اذان اور تہجد پڑھنے والوں کو واپس بھیجنے کے لئے کہی جاتی ہے تاکہ اگر انہوں نے روزہ رکھنا ہے تو اس کی تیاری کریں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:84

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ