سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) اذان میں ''الصلوۃ خیر من النوم''کا اضافہ

  • 11174
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2420

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جھنگ سے عبداللہ عمر لکھتے ہیں کہ انٹرمیڈیٹ کی اسلامیات اختیاری میں ہے کہ صبح کی اذان میں ''الصلوة خیر من النوم'' کا اضافہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا کیا یہ صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عام مشہور ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں ''الصلوة خیر من النوم'' کا اضافہ کیا، بعض مورخین نے بھی اولیات عمر رضی اللہ عنہ کے عنوان سے اس کا ذکر کیا ہے لیکن یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو جو اذان سکھائی تھی ، اس میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اگر صبح کی اذان ہوتو اس میں''الصلوة خیر من النوم'' دو مرتبہ کہا جائے۔(ابوداؤد :باب کیف الاذان)

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی '' باب الاذان فی السفر'' میں ا س کی صراحت فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ بعض محدثین کرام  رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے کہ صبح کی اذان میں '''الصلوة خیر من النوم'' کہنے کا بیان ۔اس کے تحت چند احادیث بیان کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ مؤذن فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہے تو اس کے بعد ''الصلوۃ خیر من النوم'' کہے۔''(صحیح ابن خزیمہ :1/202)

در اصل رافضی پروپیگنڈہ کے تحت ایسا لکھا جاتا ہےکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں اس کا اضافہ کیا تھا۔درج بالا تصریحات کے بعد اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔بعض حضرات کو شاید ایک واقعہ سے یہ غلط فہمی ہوئی ہو۔امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:'' کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ ایک دفعہ کوئی خادم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس صلوۃ صبح کی اطلاع دینے کےلئے حاضر ہوا تو آپ  اس وقت نیند فرمارہے تھے۔اس نے آپ کے پاس''الصلوة خیر من النوم'' کے الفاظ کہے ،اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان الفاظ کو صبح کی اذان میں رہنے دو۔''(موطا اما م مالک کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی النداء للصلوۃ )

اس کے متعلق ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:

(اولاً) اس اثر کی سند منقطع ہے۔لہذا یہ قابل استدلال نہیں۔(ثانیاً) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ ان الفاظ کا یہ محل نہیں ہے بلکہ انہیں صبح کی اذان میں رہنے دو، لہذا اس منقطع اثر سے وہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی جس کا سوال میں ذکر ہواہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:83

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ