سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) مساجد میں نقش ونگار جائز ہے یا نہیں

  • 11172
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 916

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چونیاں سے عبد الستار سوال کرتے ہیں کہ مساجد میں نقش ونگار جائز ہےیا نہیں ؟قرآن وحدیث کے مطابق جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ مساجد میں اس طرح کی مینا کاری اور نقش ونگاری جو نماز پڑھتے وقت نمازی کے لئے خلل اندازی کا باعث ہو، درست نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی زیب وزینت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ منقش چادر میں نماز ادا کی تو بعد میں فرمایا:'' اسے واپس کردو کیونکہ اس کے نقش ونگار کی وجہ سے میری توجہ ہٹ جانے کا اندیشہ ہے۔''(صحیح بخاری)

اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو نمازی کے لئے دوران نماز بے توجہی کا باعث بنے مکروہ اور ناپسندیدہ ہے جیسا کہ نقش ونگار وغیرہ۔(فتح الباری :11/483)

مساجد کی زیب وزینت اور نقش ونگاری کی مذمت کے متعلق کئی ایک احادیث ہیں بلکہ احادیث میں صراحت کے ساتھ اسے علامات قیامت قراردیتے ہوئے اس سے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، خاص طور پر جب ایسی چیزیں فخر ومباہات کا ذریعہ بن جائیں ۔چنانچہ حدیث میں ہے:'' مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ میں مساجد کو چونا گچ کروں یا انہیں نقش ونگار سے آراستہ کروں ۔''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''کہ تم اپنی مساجد کو یہود ونصاریٰ کی طرح خوب مینا کاری سے آراستہ کرو گے۔'' (صحیح ابن حبان :4/70)

ایک اور حدیث میں ہے کہ لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ اپنی مساجد کو فخر ومباہات کا ذریعہ بنائیں گے، نماز اور رشد وہدایت کے سامان سے اس کی تعمیر نہیں کریں گے۔(صحیح بخاری تعلیقاً)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ:'' جو قوم بدعملی کاشکار ہوجاتی ہے وہ مساجد کو نقش ونگار اور بیل بوٹوں سے مزین کرنا شروع کردیتی ہے۔''(ابن ماجہ ،کتاب المساجد)

یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے تاہم تائید کےلئے اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔مساجد کو مضبوط اور خوبصورت تو ضرور ہونا چاہیے لیکن نقش ونگار اور مینا کاری سے دور رکھنا چاہیے، خاص طور پرمحراب والی دیوار پر بیل بوٹے یا شیشہ لگانا جس سے نمازی کی توجہ دوسری طرف لگ جائے سخت معیوب ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:82

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ