سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) مساجد کو نقش ونگار سے مزین کرنا

  • 11171
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2956

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شہداد پور سے محمد رفیع لکھتے ہیں کہ مساجد کو نقش ونگار سے مزین کرناشرعا کیاحیثیت رکھتا ہے، نیز مسجد کے بلند وبالا مینار بنانے پر لاکھوں روپیہ صرف کیا جاتا ہے کیا یہ بہتر نہیں کہ ایسے مصارف پرخرچ ہونے والی رقم کسی مستحق غریب جماعت یا کسی دینی ادارہ کودے دی جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد میں اس طرح کی میناکاری اورنقش ونگارکرنا جو نماز پڑھتے وقت نمازی کےلئے باعث تکدر وخلجان ہو شرعاً درست نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی اشیاء کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جو نماز پڑھتے وقت نمازی کی توجہ دوسری طرف لگادیتی ہوں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بیل بوٹےاورچادر میں نماز ادا کی ،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اسے واپس کردو ا س نے مجھے نماز سے غافل کردیا ہے۔''(صحیح البخاری کتاب الصلوۃ)

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے حافط ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :'' کہ ہر وہ چیز جونمازی کے لئے دوران نماز بے توجہی کا باعث ہو، مکروہ ہے۔اس میں نقش ونگار اور اس طرح کی دیگر اشیاء شامل ہیں۔''(فتح الباری :/483)

مساجد کی بایں انداز زیب وزینت اور نقش ونگار کے متعلق کئی ایک احادیث مروی ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علامات قیامت میں شمار کرتے ہوئے اس سے منع فرمایا ہے۔خاص طور پر جب یہ چیزیں فخر ومباہات کا ذریعہ بن جائیں ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ میں مساجد کو چونا گچ یا انہیں نقش ونگار سے آراستہ کروں لیکن تم اپنی مساجد کو یہود ونصاریٰ کی طرح خوب مینا کاری سے آراستہ کروگے۔''(صحیح ابن حبان :4/70)

ایک اورحدیث میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ وہ اپنی مساجد کو فخرو مباہات کاذریعہ بنائیں گے۔اور رشد و ہدایت کے سامان سے انہیں آراستہ نہیں کریں گے۔ اس کی طرف بہت کم توجہ ہوگی۔''(صحیح بخاری تعلیقاً)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ لوگ اپنی مساجد کو خوبصورتی اور بلندی میں ایک دوسرے پر فخر کرنے کاذریعہ بنائیں۔(صحیح ابن حبان:4/70)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں یہاں تک فرمایا:'' کہ جو قوم بدعملی کا شکار ہوجاتی ہےوہ اپنی مساجد کو نقش ونگار اور بیل بوٹوں سے مزین کرنا شروع کردیتی ہے۔''(ابن ماجہ کتاب المساجد) یہ روایت اگرچہ سندکے اعتبار سے ضعیف ہے تاہم اس قسم کی روایات کو تائید و اشتہاد کے طور پر پیش کیا جاسکتاہے۔

مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر مساجد میں نقش ونگار کو مستحسن نہیں قرار دیا جاسکتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے ستون کھجور ہی کے تنے تھے۔سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی سادگی کوبرقرار رکھا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت فتوحات ہوئیں لیکن انہوں نے مسجد کے نقش ونگار کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔البتہ لکڑیاں بوسیدہ ہونے کی وجہ سے عمارت کی تجدید کردی اور اس میں کسی قسم کا اضافہ نہ کیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی نقش ونگار کے بغیر ہی اسے پختہ کردیا۔اس پر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوردیگر لوگوں نے اعتراض کیا جیسا کہ بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب من بنیٰ مسجدا)

مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ ولید بن عبدا لملک وہ پہلا شخص ہے جس نے مسجد نبوی کو نقش ونگار سے خوب مزین اور آراستہ کیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت فتنہ وفساد کے اندیشہ کےپیش نظر خاموش رہی۔(فتح الباری) البتہ مسجد تعمیر کرتے وقت محل وقوع کا اعتبار ضروری کرنا ہوگا۔جس مقام پر لوگ بہترین کوٹھیوں میں رہتے ہوں وہاں مسجد بھی اسی شان کی ہونی چاہیے، ایسے مقام پر مسجد کو جدید سہولیات سے مزین کرنا باعث اجروثواب ہوگا۔ اسی طرح مینار بنانا مسجد کی ایک شناختی علامت ہے تاکہ دوسرے گھروں سے ممتاز نظر آئے۔اگر کوئی مسجد کی شان ورفعت کو اونچا کرنے کے لئے اسے عالی شان بناتا ہے تو کوئی حرج نہیں، ضروری نہیں کہ فقراءو مساکین کے لئے یہی رقم صرف ہو۔ان کے لئے اور بہت سے ذرائع ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد کو بہت عالی شان بنایا تھا حتیٰ کہ مسجد میں استعمال ہونے والی ساگوان کی لکڑی ہندوستان سے منگوائی گئی تھی۔ اس وقت اعتراض کرنے والوں کو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا کہ تم مجھ پر اعتراض کرتے ہو،حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''جوکوئی اللہ کی رضا جوئی کےلئے اس کا گھر تیار کرتا ہے،اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے اسی جیسا گھر تعمیر کرے گا۔''(بخاری :کتاب الصلوۃ)

مختصر یہ ہے کہ تعمیر مسجد کے وقت مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

1۔اس میں بیل بوٹے اور بے جا نقش ونگار نہ ہوں، بالخصوص قبلہ والی دیوار اور محراب سادہ ہونا چاہیے۔

2۔اصحاب ثروت اپنی گرہ سے تعمیرکریں، اس کے لئے سفارتی مہم چلا کر چندہ وغیرہ جمع نہ کیا جائے۔

3۔مسجد تعمیر کرتے وقت ریاکاری یا فخرومباہات کا قطعاً کوئی ارادہ نہ ہو۔

4۔جس مقام پر لوگ صاحب حیثیت نہ ہوں وہاں اپنے حسب حال ہی مسجد کو تعمیر کرلیا جائے۔

5۔مسجد عام گھروں سے امتیازی حیثیت کی حامل ہونی چاہیے۔

6۔مسجد کے ظاہری حسن سے زیادہ اس کے باطنی محاسن کو اجاگر کیا جائے جو تعمیر مسجد کی اصل روح ہے۔

7۔تعمیر مسجد کے وقت محل وقوع کا ضرور اعتبار کرنا چاہیے تاکہ اللہ کا گھر اعلیٰ شان اور بلند مقام کاحامل ہو۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:80

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ