سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) جرابوں پر مسح کرنا

  • 11148
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1714

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عبد اللہ سلام میاں چنوں سے دریافت کرتے ہیں کہ جرابوں پر مسح کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز اگر جرابیں پھٹی ہوئی ہوں تو کیا ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ اور اگر کسی نے مسح کرنے کے بعد جرابیں اتاردیں تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ دین اسلام کی بنیاد سہولت اور رفع حرج پر رکھی گئی ہے، اس کے احکام میں اس قدر آسانی ہے کہ مزید سہولت کا تصور نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام رحمت اور دلوں کی تسکین کا باعث ہے۔جرابوں پر مسح کرنے کی سہولت بھی اسی قبیل سے ہے۔احادیث میں صراحت کے ساتھ جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت منقول ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین کرام ، ائمہ دین اور محدثین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی موقف ہے کہ جرابوں پر مسح کیا جاسکتا ہے۔ چند احادیث کا حوالہ پیش خدمت ہے۔

''حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہم کے لئے ایک فوجی دستہ بھیجا جنھیں سردی سے تکلیف ہوئی۔جب وہ واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سخت سردی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ پگڑی اور جرابوں پر مسح کرلیاکریں۔''(مسند امام احمد :ج5ص 275)

''حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں اور جوتوں پرمسح کیا۔''(ابو داؤد باب طہارۃ 159)

''حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ وضوکیا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔''(ابن ماجہ :الطہارۃ 560)

حضر ت ازرق بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ بے وضو ہوئے تو انہوں نے وضو کرتے ہوئے ہاتھ اور منہ دھوئے، پھر اون کی جرابوں پر مسح کیا۔ہم نے عرض کیا کہ ان پر مسح کرناجائز ہے؟اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''کیوں نہیں !یہ بھی موزے ہیں لیکن اون کے ہیں۔'' (الکنیٰ والاسما ء للدولابی :1/18)

حضرت انس رضی اللہ عنہ صحابی اور عربی الاصل ہیں، وہ خف کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپالے، آپ کی یہ وضاحت معنی کے اعتبار سے نہایت دقیق ہے کیونکہ ان کے نزدیک لفظ جوربین لغوی وضعی معنی کے لحاظ سے خفین کے مدلول میں داخل ہیں۔ اورخفین پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں۔لہذا جرابوں پر مسح میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ،حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے ملاحظہ ہو۔(محلی ابن حزم :2/85)

ان احادیث پر کچھ اعتراضات بھی ہیں ہم ان کی وضاحت اور مفصل جواب اور فرصت پر اٹھا رکھتے ہیں۔

اگر جراب یا موزہ پھٹ جائے تو اس پر مسح کرنے کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ جب تک جراب کا نام اور کام باقی ہے اس پر مسح کرنا جائز ہے۔کیونکہ ان کےلئے صحیح وسالم کی شرط لگانے کا کوئی ثبوت نہیں۔نیز امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''کہ جب تک موزے پاؤں میں پہنے رہیں ان پر مسح کرتے رہو۔مہاجرین و انصار کے موزے پھٹے پرانے پیوند لگے ہوتے تھے۔'' (محلیٰ ابن حزم :ص '2/102)

حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :'' کہ اگر موزے یا کسی دوسری چیز میں جو پاؤں میں پہنی ہوئی ہے کسی قسم کا چھوٹا یا بڑا سوراخ ہو جائے جس سے قدم کا تھوڑا یا زیادہ حصہ نظر آرہا ہو تو ان سب صورتوں میں مسح جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ پاؤں میں پہنے ہوئے ہوں۔ سفیان ثوری ،داؤد ،ابوثور، اسحاق بن راہویہ اور یزید بن ہارون کا یہی مسلک ہے۔''(محلیٰ ابن حزم :ص 2/10)

حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے۔وہ لکھتے ہیں:'' کہ پھٹے ہوئے موزے پر خف کا لفظ بولا جاتا ہے مسح جائز ہے۔''(الاختیارات :ص 3)

اسی طرح جرابیں جب تک گردوغبار سےبچاؤ اور سردی سے تحفظ کا کام دیتی ہیں ان پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر کسی شخص نے جرابوں پر مسح کرنے کے بعد انہیں اتار دیا تو اس کا وضو صحیح رہے گا۔اسے پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ مسح اللہ کی طرف سے سہولت اور رخصت ہے۔ اسے خود ساختہ شرائط سے مشروط کرنا عقل ونقل کے خلاف ہے ، اس کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ وضو کیا تو جوتوں پرمسح کیا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور جوتوں کو اتار کرنماز اداکی۔(بیہقی :1/288)

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

''موزے اور پگڑی پر مسح کرنے والا اگر ان کو اتار دے یامدت مسح ختم ہوجائے تو وضو نہیں ٹوٹےگا اور نہ ہی اس پر دوبارہ سر کا مسح اور پاؤں کا دھونا واجب ہے۔امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی فتویٰ ہے۔نیز مسح کے بعد سرکے بال منڈوا دینے کی صورت میں جمہور اورامام احمد کا یہی مذہب ہے۔''(الاختیارات)

جن روایات میں موزے اتارنے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں ہیں۔

حافط ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہےاور مخالفین کے دلائل پر عمدہ بحث کی ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔ ملاحظہ ہو۔(محلیٰ ابن حزم :2/ 105)

مختصر یہ ہے کہ جرابوں پر مسح جائز ہے خواہ موٹی ہوں یا باریک ،خواہ پھٹی پرانی ہی کیوں نہ ہوں، نیز مسح کرنے کے بعد انہیں کسی وجہ سے اتار دینا ناقض وضو نہیں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:66

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ