سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) احاديث کی اسناد حیثیت

  • 11134
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1604

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہفت روزہ اہل حدیث مجر یہ ( 2/فروری2001ء)میں مو لا نا محمد اعظم آف گو جرا نو ا لہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت سے متعلقہ دوا حا دیث کی استنا دی حیثیت کے متعلق بایں الفا ظ تبصرہ فر ما یا ہے کہ :

’’اس قسم کی احا دیث مو ضو ع ہیں نیز حدیث کی کسی معتبر کتا ب میں مذکو ر نہیں اور نہ ہی ائمہ اربعہ سے منقول ہیں ، امام بزا را ورامام دار قطنی نے ضعیف سندو ں سے ذکر کیا ہے اور سا تھ ہی وضاحت کر دی ہے کہ یہ احا دیث ضعیف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت نہیں ۔‘‘

 اس کے متعلق ہما رے ایک مہر با ن جنا ب محمد رفیق قادر ی نے تنقید ی مضمو ن سپرد قلم کیا ہے جو آپ کو ارسا ل کر رہا ہوں برا ہ کرم ان احا دیث کی مزید وضاحت فر مادیں-----(دعا گو :عبد الغفا ر فر دوسی ۔خانیوال )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر  مبا رک کی زیا رت سے متعلقہ جتنی احا دیث مر وی ہیں وہ سب نا قا بل اعتبار اور ضعیف ہیں چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ،"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبا رک کی زیا رت سے متعلقہ تمام احا دیث کمز و ر اور ضعیف ہیں، دینی معا ملا ت میں ان پر اعتبا ر نہیں کیا جا سکتا۔" (التو سل:ص71)

مو لا نا شیخ الحدیث محمد اعظم نے ان پر مختصر مگر جا مع تبصر ہ فر ما یا ہم ان کی تا ئید مز ید کر تے ہیں :

حدیث نمبر(1)

’’جس نے ایک ہی سا ل میں میر ی اور میری نسب ابرا ہیم کی زیا رت کی ،میں اللہ کی طرف سے اس با ت کی ضمانت دیتا ہوں کہ وہ جنت میں جا ئے گا ۔‘‘

علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو مو ضو ع قرار دیا ہے ۔ (سلسلۃ الا حا دیث المو ضو عہ : 61/1)

 انہو ں نے محد ث زرکشی کے حو الہ سے لکھا ہے : یہ مو ضو ع ہے علم حد یث رکھنے وا لو ں میں سے کسی نے بھی اسے بیا ن نہیں کیا ۔(اللالی المنثو رہ نمبر 156)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور علا مہ نو و ی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث مو ضو ع اور بے بنیا د ہے۔ (الفوا ئد المجمو عہ : ص 11)

تفصیل کے لئے ’’ الصا ر م المنکی فی الر دعلی السبکی‘‘ کا مطا لعہ مفید رہے گا۔

حدیث نمبر (2)

’’جس نے میر ی مو ت کے بعد میر ی زیا رت کی گو یا اس نے میر ی زند گی میں میر ی زیا ر ت کی اور جس نے میر ی مو ت کے بعد میر ی زیا رت کی اس کے لئے میر ی شفا عت وا جب ہو گئی۔‘‘

اس حد یث کو امام دار قطنی نے با یں سند بیا ن کیا ہے : عن ھارو ن ابی قزعة عن رجل من آل حا طب عن حا طب رضی اللہ عنه"

علا مہ البا نی  رحمۃ اللہ علیہ نے اس حد یث کو با طل قرار دیا ہے ۔ (سلسلۃ الاحا دیث المو ضو عہ : ص 89/3)

پھر اس کے بے بنیا د اور ضعیف ہو نے کی تین و جوہا ت بیا ن کی ہیں :

 (1) ہا رو ن ابی قز عہ ضعیف ہے، علا مہ عقیلی نے اسے ضعفا ء میں شما ر کیا ہے ۔ (کتا ب الضعفا ء الکبیر : ص 360/4)

علا مہ ذھبی  رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخا ری کے حو الہ سے لکھا ہے : لا یتا بع علیه " یہ راو ی متا بعت کے قابل نہیں۔ (میزان الاعتدال : ص285/4)

(2) پھر انہو ں نے حضرت حا طب کے حو الہ کے بغیر اس حد یث کا حوالہ بھی دیا گو یا یہ حد یث مر سل ہے اس حد یث کی سند میں سخت اضطراب ہے، پہلے تو ھا رو ن ابی قز عہ کے نا م میں اختلا ف ہے، کچھ راوی اسے مرسل بیا ن کر تے ہیں جبکہ  بعض راوی حضرت حا طب  کے حو الہ سے اسے مو صول بیا ن کر تے ہیں، اس کے متن کے متعلق بھی بہت اختلا ف ہے ۔ اس اختلا ف کو دیکھنے کے لئے الصا رم المنکی کا مطا لعہ مفید رہے گا ۔

علامہ ازدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :"

(ھا رو ن ابو قزعة یروی عن رجل من آل حا طب المرا سیل )(سلسلة الاحا دیث )

(3)اس ہا رو ن ابو قزعہ کے شیخ بھی مجہو ل ہیں جن کے متعلق کو ئی پتہ نہیں کہ وہ کس پا ئے کے ہیں ، علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ (اروا ء الغلیل : ص 335/4)

 "امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :

یہ ایک کھلا جھو ٹ ہے کہ ایک شخص جو صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کے بعد پیدا ہوا، اسے محض قبر مبا رک کی زیا رت کر نے کی وجہ سے صحا بی کے مر تبے پر فا ئز کر دیا جا ئے ۔(التوسل :ص71)

مولانا محمد اعظم نے اپنے مضمو ن میں انہی دو احا دیث کا حوا لہ دیا تھا ،ان کی استنادی حیثیت کو مختصر طور پر ہم نے واضح کر دیا ہے۔ تنقیدی مضمو ن نگا ر نے تیسر ی حدیث کا حو الہ بھی دیا ہے :

حدیث نمبر (3)

’’جو شخص میر ی قبر کی زیا رت کر ے گا اس پر میر ی شفا عت واجب ہے ۔‘‘

 اس حدیث کو امام دار قطنی نے بر وایت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما بیا ن کیا ہے ۔ (دار قطنی : 2/ 872)

اس حدیث کے متعلق ہما ری گز ار شا ت حسب ذیل ہیں :

علا مہ شو کا نی  رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو مو ضو ع احا دیث میں شما ر کیا ہے ۔ (الفوا ئد المجمو عہ، حدیث نمبر 35)

اس حدیث کا ایک راو ی مو سیٰ بن ھلا ل ہے جس کے متعلق امام ابو حاتم لکھتے ہیں کہ مجہو ل ہے ۔(التعلیق المغنی : ص 278/2)

علا مہ عقیلی اس کے متعلق لکھتے ہیں : (لا یصح حد یثه ولا یتا بع علیه) (کتا ب الضعفا ء :ص 170/4)

اس کی بیا ن کردہ حد یث صحیح نہیں اور نہ ہی متا بعت کے قا بل ہے ،پھر مذکو رہ حدیث کا حو الہ دے کر اس کے ضعف کو وا ضح کیا ہے۔

 علا مہ ذہبی نے بھی اس حدیث کو ذکر کر نے کے بعد اس کی نکا رت کو واضح کر دیا ہے ؛(میزا ن الاعتدال :ص 226/4)

تنقیدی مضمو ن نگا ر نے آغا ز میں قرآن  پا ک کی مند ر جہ ذیل آیت کریمہ سے بھی اپنا مطلب کشید کر نے کی کو شش کی ہے : "اگر انہو ں نے یہ طر یقہ اختیار کیا ہو تا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تمہارے پا س آجا تے اور اللہ سے معا فی ما نگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی درخو است کر تے تو یقیناً اللہ تعا لیٰ کو بخشنے والا اور رحم کر نے وا لا پاتے ؛(4/النسا ء :64)

اس آیت کے سیا ق و سبا ق سے ہی معلو م ہو تا ہے کہ یہ منا فقین کے کر دا ر کو بے نقا ب کر نے کے لئے نا زل ہو ئی تھی اور یہ  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زند گی کے سا تھ خا ص تھی اور اس آیت میں بھی منافقین کو ہی خطاب کیا گیا ہے ۔ اللہ تعا لیٰ ہمیں نفا ق سے محفو ظ رکھے۔

مضمو ن نگا ر کا مطا لبہ تھا کہ ان احادیث کو مستند اور مسلم حو الہ جا ت سے مو ضو ع ثا بت کر یں سو ہم نے ان کا مطالبہ پو را کردیا ہے ان کے علا وہ اور بھی احادیث ہیں جو پیش کی جا تی ہیں اگر ضرورت محسو س ہو ئی تو ان کے متعلق قلم اٹھا یا جا ئے گا ۔(واللہ اعلم )

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:50

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ