سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو بددعا دینا

  • 11132
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 5037

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن و حدیث کی رو شنی میں وضا حت فر ما ئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کو بد دعا دی ہے یا نہیں ۔ (عبدالر شید ملتا ن )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعا لیٰ نے کر یما نہ اخلا ق سے نوا زا تھا کہ آپ کسی کے حق میں بد دعا یا لعنت نہ فرما تے تھے، بلکہ ایک دفعہ آپ سے کہا گیا کہ مشر کین پر بد دعا فر ما ئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اب دیا : "کہ میں لعنت کے لئے مبعو ث نہیں ہوا ہو ں بلکہ مجھے با عث رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم، کتا ب البر )

اسی طرح  آپ کو ایک مر تبہ قبیلہ دوس پر بد دعا کے لئے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لئے راہ راست پر آنے کی دعا فر ما ئی جس کے نتیجے میں وہ مسلما ن ہو گئے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البر وا لصلۃ)

البتہ بعض اوقا ت عر ب کی عادت کے پیش نظر اظہا ر تعجب یا افرا د کے لئے کچھ الفا ظ زبا ن پر جا ر ی ہو جاتے  ہیں، مثلاً اس کی نا ک خا ک آلود ہو ، تیر ی ما ں تجھے گم پا ئے ، تیرا دا یا ں ہا تھ خا ک میں مل جا ئے وغیرہ، بعض اوقا ت ایک اور اندا ز میں اس طرح کے کلمات استعما ل فرما تے ہیں، مثلا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ میری والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پا س ایک بچی رہا کرتی تھی ،ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فر ما یا :" اب تو بڑ ی ہو گئی ہے تیر ی عمر دراز نہ ہو۔ " یہ الفاظ سن کر بچی رو تی ہوئی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پا س آئی ، ماجر ا بیا ن کیا ،حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فر ما یا : کہ میں نے اللہ تعا لیٰ سے با ت سنوائی ہے کہ اگر میں کسی ایسے مسلما ن کو بد دعا دوں جو اس کا اہل نہ ہو تو قیا مت کے دن اس بددعا کو اس کے لئے رحمت و قر ب کا ذر یعہ بنا دے ۔(صحیح مسلم: کتاب البر والصلۃ)

حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بھی اس باب کے تحت بیا ن کیا ہے، ایک مر تبہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت ابن عبا س  رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر لائے ، حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے آکر جوا ب دیا کہ وہ کھا نا کھا رہے ہیں، آپ نے دو بارہ بھیجا ، انہو ں نے پھر وہی جوا ب دیا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوا ب دیا کہ اللہ کرے اس کا پیٹ نہ بھر ے ۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ )

محدثین کرا م نے اس حدیث کو مناقب معاو یہ رضی اللہ عنہ میں بیان کیا ہے کیو نکہ حضرت معاو یہ رضی اللہ عنہ تو اس بد دعا کے اہل نہ تھے کیو نکہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما انہیں کچھ کہنے کی بجا ئے دیکھ کر وا پس آگئے تھے، بنابریں یہ کلما ت آپ کے لئے دعا ہیں جو قیا مت کے دن اللہ کے ہا ں رحمت و قر ب کا ذریعہ ہوں گے، البتہ جب دشمنان اسلام کی مکا را نہ سا ز شیں حد سے بڑھ گئیں تو مجموعی طور پر اور پھر نا م لے لے کر بد دعا فر ما ئی جیسا کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا :’’ کہ اے اللہ ! میں قر یش کا معاملہ تیر ے حوالے کرتا ہو ں پھر آپ نے بڑ ے بڑے سر غنو ں کے نا م لے کر بد دعا فر ما ئی ۔‘‘ (صحیح بخا ری )

اسی طرح بعض افعا ل کے ار تکا ب پر بھی مر تکب کو با عث لعنت قرار دیا ،مثلاً وا لد ین کی نا فر ما نی، شرا ب نو شی اور سو د خوری  یا جھو ٹی قسم اٹھا کر کسی کا ما ل نا جا ئز طو ر پر ہتھیا نے وا لے کے متعلق فر ما یا : ’’ کہ اللہ تعالیٰ اس کے ما ل میں بر کت نہ کر ے ۔ ‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:48

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ