سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(412) منشیات کا کاروبار کرنے والوں سےجان کا خطرہ

  • 10777
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1236

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص بعض لوگوں کو جانتا ہے' جو منشیات کا کاروبار کرتے ہیں ۔لیکن ان کی طرف سے جان کا خطرہ یا ان سے رشتہ داری کی وجہ سے حکمرانوں کو ان  کے بارے میں بتا نہیں سکتا تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ حکمرانوں کو بتانے کی وجہ سے اگر وہ اسے  ماریں یا قتل کردیں تو کیا یہ آزمائش اللہ کی راہ میں شمار ہوگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا جواب یہ ہے کہ حکمرانوں کے لیے یہ لازم نہیں ہےکہ وہ بتائیں کہ ان تک یہ خبر کس نے پہنچائی ہے بلکہ حکمرانوں کے لیے تو یہ واجب ہے کہ وہ یہ نہ بتائیں کہ ان تک کس نے خبر پہنچائی ہے بلکہ انہیں جب کسی جرم کے بارے میں یقین ہوجائے کہ اس کا ارتکاب  کیا جارہاہے تو پھر وہ اپنے اس یقین کے مطابق عمل کریں اور اگر  انہیں یقین حاصل نہ ہو تو پھر بات کرنے والے شخص کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ دیں کیونکہ اگر ہم  ہر اس شخص کے انم کے اعلان کا دروازہ کھول دیں 'جو کسی برائی کے بارے میں حکمرانوں کو بتائے تواس کانتیجہ یہ نکلے گا کہ حکمرانوں کے پاس کوئی شخص بھی خبر نہیں پہنچائے گا کیونکہ اس طرح تو ہر شخص اپنے بارے میں قولی یا فعلی ایذا سے ڈرے گا لہذا حکمرانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس شخص کے نام کا اعلان نہ کریں ' جو ان تک  خبر  نہیں پہنچائے گا کیونکہ اس طرح تو ہر شخص کے بارے میں قولی یافعلی ایذاء سے ڈرے گا لہذا حکمرانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس شخص کے نام کا اعلان نہ کریں 'جو ان تک خبر پہنچائے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر کسی شخص کی خبر  کے بارے میں تحقیق سے انہیں یقین حاصل ہوجائے تو وہ کاروائی کریں اوراگر یقین  حاصل نہ ہو تو پھر  اس خبر  کی طرف  کوئی توجہ نہ دیں اور اگر اس خبر دینے والے شخص کے بارے میں بتایا گیا تو اندیشہ  ہے کہ اسے قولی وفعلی طور پر ایذاء پہنچائی جائے گی اور اس میں اس کا نقصان ہے اور اگر دلوں میں قوی اور مضبوط ایمان نہ ہو تو پھر خوف کی وجہ سے انسان حکمرانوں تک بات نہیں پہنچاسکتا البتہ اگر اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز  رکھا جائے تو پھر  وہ متعلقہ حکام تک اطلاع پہنچاسکتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص319

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ