سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(347) شادی کی انگوٹھی

  • 10718
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1126

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مردوں کے لیے  شادی کے موقع پر چاندی  کی انگوٹھی  پہننے  کے بارے میں کیا حکم  ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردوں  یا عورتوں کے لیے اس انگوٹھی  کا پہننا بدعت ہے اور بعض صورتوں  میں حرام  بھی ہوسکتی ہے'کیونکہ  بعض  لوگوں کا عقیدہ   یہ ہے کہ یہ انگوٹھی  میاں اور بیوی  کے درمیان محبت  کا سبب ہے یہی  وجہ  ہے جیساکہ بیان کیا جاتاہے کہ بعض مرد اپنی  انگوٹھی  پر اپنی  بیوی کا نام اور بعض عورتیں اپنی  انگوٹھی  پر اپنے   شوہر کا نام لکھ لیتی ہیں اوران سے ان کا مقصد یہ  ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق قائم  دائم  رہے تو یہ شرک کی ایک قسم  ہے کیونکہ ان کے دونوں نےایک ایسے سبب کا عقیدہ رکھا  جو  قدراً یا شرعاً سبب ہے ہی نہیں اس بے چاری انگوٹھی  کا مودت یا محبت سے کیا تعلق؟ کتنے ہی جوڑے ہیں' جنہوں نے اس انگوٹھی  کو استعمال نہیں کیا مگر  ان میں نہایت شدید  مودت  ومحبت ہے اور کتنے ہی جوڑے ہیں' جنہوں نے اس انگوٹھی کواستعمال کیا  مگر وہ محرومی ' بد قسمتی  اور بد بختی میں مبتلا ہیں۔ یعنی  اس فاسد  عقیدہ کی وجہ سے یہ شرک  کی ایک قسم ہے اور یہ عقیدہ  نہ ہوتو پھر  غیر مسلموں  کے ساتھ    مشابہت ؛کیونکہ  یہ رسم عیسائیوں سے لی گئی ہے ،لہذا مومن کو چاہیے  کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جو  اس کے دین  میں خلل ڈالے۔

جہاں تک  مرد  کے لیے چاندی  کی انگوٹھی  پہننے کا تعلق ہے۔ محض انگوٹھی کی حیثیت سے  کہ  یہ انگوٹھی  میاں بیوی  میں تعلقات کو مضبوط ومستحکم رکھے  گی 'تو اس میں کوئی حرج نہیں 'کیونکہ  مردوں کے لیے  چاندی  کی انگوٹھی  استعمال کرنا جائز ہےاور سونے   کی انگوٹھی  استعمال کرنا  حرام ہے'اس لیے نبیﷺ نے جب  ایک صحابی  کے ہاتھ میں سونے  کی انگوٹھی  دیکھی تو آپ نے  اسے اتار کر پھینک  دیا اور فرمایا :

((يعمدكم  احدكم اليٰ جمرة من نار فيجعلها في يده ))(صحيح مسلم  ‘اللباس‘ باب تحريم  خاتم الذهب  علي  الرجال ______الخ‘ ح: ٢-٩-)

’’تم میں سے  ایک شخص آگ کے انگارے  کا قصد کرتا ہے اوراسے اپنے ہاتھ  میں پہن  لیتا ہے۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص272

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ