سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(323) رزق کمانا شرعاً مستحسن ہے

  • 10680
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1030

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں پچیس سال کا ایک نوجوان ہوں اور اللہ کے احکام کا پابند ۔ میرے کچھ یتیم بھائی بھی ہیں اوراکثر و بیشتر ہمارا گزارا مخیر لوگوں کی خیرات پر ہے۔ میں جہاد کے لیے افغانستان  بھی گیا اور وہاں تین سال تک رہا،اب میں واپس آیا ہوں  تو مجھے ایک کام کی پیشکش ہوئی ہے لیکن میرا دل  کام کرنے  اور دوسروں کے احکام کی پابندی  کرنے کو نہیں چاہتا ۔سوال یہ ہے کہ اگر  میں کوئی کام  نہ کروں تو کیا مجھے گناہ ہے؟ کیا  میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں اپنے بھائیوں  کے مال کو لیکر اس سے اپنے دوستوں کی مہمان نوازی کروں؟ امید ہے کہ  شافی جواب عطا فرمائیں گے کیونکہ میرے علاوہ یہ مسئلہ کئی اور نوجوانوں کا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کو چاہیے کہ آپ رزق کمائیں اور اپنی اور اپنے بھائیوں کی بھی ضروریات کو۔۔۔۔اگر وہ خود رزق کمانے سے قاصر ہوں۔۔۔ پورا کریں، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((الساعي علي الارملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله ))(صحيح البخاري ‘الادب ‘باب الساعي علي الارملة ‘ ح: ٦—٦ وصحيح مسلم ‘الزهد باب فضل الاحسان الي الارملة والمسكين واليتيم‘ ح :٢٩٨٢)

’’بیوہ اور مسکین کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘

((وكالقائم لا يفتر وكالصائم لا يفطر)) ( صحيح مسلم  ‘الزهد‘باب فضل الاحسان الي الارملة والمسكين واليتيم ‘ ح: ٢٩٨٢)

’’وہ اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو کبھی اکتا ہٹ محسوس نہ کرے اور اس روزے دار کی طرح ہے جو کبھی روزے کا ناغہ نہ کرے۔‘‘

آپ کےلیے یہ حلال نہیں کہ اپنے  اور اپنے مہمانوں پر خرچ  کرنے  کے لیے اپنے یتیم بھائیوں کے مال کو استعمال  کریں الا یہ کہ آپ عاجز وقاصر ہوں کہ کچھ کما نہ سکیں'یا آپ کے بھائی بڑےہوکر سمجھ دار ہوجائیں اورآپ  کو اپنا مال استعمال کرنے کی  اجازت دے دیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص249

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ