سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(288) والدین کے ساتھ نیکی کے پانچ کام

  • 10645
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1455

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

والدین کے ساتھ نیکی کس طرح کی جاسکتی ہے؟کیا ان میں سے کسی  کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہےجب کہ قبل ازیں انہوں نے خود بھی عمرہ کیا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

والدین کے ساتھ  مال وجاہ اور بدنی  نفع  پہنچانے  کی صورت میں نیکی اور بھلائی کرنا واجب ہے' جب کہ والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ نافرمانی یہ ہے کہ ان کی زندگی میں ان کا حق ادا نہ کیا جائے اور ان کے ساتھ نیکی وبھلائی نہ کی جائے  اور جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا کہ  ان کی زندگی میں ان کے ساتھ  نیکی وبھلائی  مال وجاہ وجسم کے ساتھ  ہوتی ہے اور ان کی وفا کے بعد اس صورت میں کہان کے لیے دعا واستغفار کیا جائے۔ان کی وصیت  پر عمل کیا جائے۔ان کے دوستوں کی عزت کی جائے اور ان لوگوں سے صلہ رحمی کی جائے جن  سے صلہ رحمی کا سبب والدین ہی ہوں۔ یہ ہیں نیکی کے وہ پانچ قسم  کے کام جو والدین کی وفات  کے نعد کیے جاسکتے ہیں۔

والدین کی طرف سے صدقہ کرنا بھی  جائز ہے لیکن بیٹۓ سے یہ نہ کیا جائے کہ تو صدقہ کر بلکہ یہ کہا جائے کہ تو صدقہ کر بلکہ یہ کہا جائے کہ اگر تو صدقہ کرے تو یہ جائز ہے اور اگر تو صدقہ  نہ کرے تو ان کے لیے دعا کرنا افضل ہے'کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

((اذامات  الانسان  انقطع  عنه  عمله الا من  ثلاثة: الا من صدقة جارية‘او علم  ينتفع به ‘او  ولد  صالح يدعوا له)) (صحيح مسلم‘الوصية‘باب مايلحق الانسان  من الثواب بعد وفاته‘ ح:١٦٣١)

’’ جب انسان  فوت ہوجاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کا ہر عمل ختم ہوجاتا ہے (1) صدقہ جاریہ (2) ایسا علم (3) جس سے نفع  اٹھایا جاتا ہو اور  (3) نیک اولاد  جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘

(اس حدیث میں) نبی اکرمﷺ نے عمل کے بارے میں ارشاد فرمایتے ہوئے جو دعا کا ذکر کیا ہے  تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ والدین کی وفات کے بعد  ان کی طرف  سے صدقہ کرنے  'عمرہ ادا کرنے'قرآن مجید  کی تلاوت  کرنے اور ان کی طرف سے نماز پڑھنے کی بجائے ان کے لیے دعا کرنا افضل ہے' کیونکہ یہ ممکن  نہیں کہ رسول اللہﷺ افضل کو چھوڑ کر مفضول کو بیان فرماتے 'بلکہ یہی بات آپ کے شایان شان  تھی کہ آپ افضل اعمال کو بیان فرمادیتے اور  مفضول کے بارے میں یہ بیان فرمادیتے کہ یہ جائز  ہیں، جیساکہ آپ نے بیان فرمایا ہے۔اسی طرح سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے  نبیﷺ سے اپنی والدہ  کی طرف سے  صدقہ کرنے کی اجازت  طلب کی تو آپ نے انہیں اجازت  عطا فرمادی ۔اسی طرح آپ نے  اس شخص کو بھی اجازت  دے دی جس نے عرض کیا تھایارسول اللہ ! میری امی اچانک فوت ہوگئی ہیں۔میرا گمان ہے کہ  اگر انہیں بات  کرنے کا موقع  ملتا تو وہ صدقہ کرتیں'تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔

بہرحال میں اپنے  اس بھائی سے  کہنا  یہ چاہتا ہوں کہ اپنے  والدین  کی طرف  سے عمرہ ادا کرنے  یا صدقہ کرنے  یا اس طرح کے دیگر کام کرنے کے بجائے اپنے والدین کے لیے کثرت سے دعا کریں' کیونکہ رسول اللہﷺ نے یہی راہنمائی  فرمائی ہے۔اگر وہ صدقہ کریں یا عمرہ ادا کریں یا نماز  پڑھیں یاقرآن مجید پڑھیں اور ان اعمال کو اپنے  والدین  یا ان میں سے کسی ایک کی طرف سے ادا کریں توہم اس کا  بھی انکار نہیں کرتے اور اگر والدین نے عمرہ یا حج ادا نہ کیا ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرض ادا کرنا دعا سے افضل ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص226

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ