سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(270) میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں....

  • 10628
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1650

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ایک دین دار  اور بااخلاق لڑکی  کو شادی کے لیے پسند  کیا ہے  اور جب اس کے بارے  میں میں نے  اپنے  والدکو بتایا تو انہوں نے اسے مسترد  کردیا ۔ میں نے انہیں قائل کرنے  کی کوشش کی مگر  وہ اپنے موقف  پر ڈٹ گئے  اور جب  میں نے  ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے  کہا کہ نہیں اس کا کوئی سبب  بھی نہیں ۔ میں حیران ہوں کہ  باپ کی اطاعت کرتے ہوئے اس لڑکی  سے صرف نظر  کرلوں'جسے میں نے اپنے  لیے پسند کیا تھا'حالانکہ  اس سے مجھے  اس لڑکی کے خاندان کی طرف  سے نفسیاتی  طور پر کئی  تکلیفوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا میں کیا کروں 'امید ہے کہ صحیح راستے  کی طرف  میری راہنمائی  فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم یہاں  دو نصیحتیں  کریں ۔ایک نصیحت  تو آپ کے والد کے لیے ہے' جنہوں نے  آپ کو اس عورت سے شادی  سے منع  کردیا ہے'جس  کے بارے میں  آپ کا یہ کہنا ہے کہ  وہ متدین  اور بااخلاق ہے لہذا  آپ کے والد  کے لیے واجب  یہ ہے کہ  وہ آپ کو اس عورت  سے شادی کی اجازت  دے دیں الا یہ کہ ان کے پاس  ممانعت  کے لیے کوئی  شرعی  سبب ہو  اور وہ اسے بیان بھی کریں تاکہ آپ مطمئن  ہوجائیں۔آپ کے والد کو چاہیے کہ  وہ اس مسئلہ کا اس طرح  بھی جائز ہ  لیں  کہ اگر  ان کے والد  انہیں کسی ایسی عورت  سے شادی کرنے  سے منع  کردیتے  جو انہیں دین واخلاق کے اعتبار  سے پسند ہوتی 'تو اس  سے ان کے دل  پر کیا گزرتی 'لہذا اگر وہ اس بات  کو پسند  نہیں کرتے  کہ ان کے والد  کی طرف  سے ان پر  کوئی ایسی  پابندی  عائد  ہو تو  ان کا بیٹا بھی پسند نہیں کرات کہ اس پر اس کے  والد  کی طرف  سے کوئی ایسی  پابندی عائد ہو  اور نبی ﷺ نے فرمایاہے:

((لايؤمن احدكم حتي يحب  لاخيه مايحب  لنفسه)) (صحيح البخاري ‘الايمان ‘باب من الايمان ان يحب  لاخيه ما يحب  لنفسه‘ ح: ١٣ وصحيح مسلم ‘الايمان‘باب الدليل علي ان من خصال الايمان ان يحب  لاخيه المسلم ۔۔۔۔الخ، ح: ٤٥)

’’تم میں سے کوئی  شخص  اس وقت  تک  مسلمان نہیں ہوسکتا جب  تک اپنے  بھائی کے لیے  بھی وہ پسند نہ کرے جسے  وہ خود اپنے لیے پسند  کرتا ہے۔‘‘

آپ کے والد  کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ  وہ کسی  شرعی  سبب کے بغیر آپ کو اس  عورت  سے شادی  کرنے سے منع  کریں اور اگر اس کا  واقعی کوئی  شرعی سبب ہو تو وہ انہیں بیان نہیں کرنا چاہیے  تاکہ آپ کے سامنے بھی  ساری صورت حال  واضح  ہو ۔اسی طرح  آپ کو میں یہ نصیحت  کرنا چاہتا ہوں  کہ اگر  باپ  کو راضی کرنے کے لیے  اور اختلاف  کو ختم کرنے کے لیے  آپ اس کے سوا  کسی  اور عورت  سے شادی کرلیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

اور اگر آپ کے لیے یہ ممکن نہ ہو  کیونکہ آپ کا دل اس عورت  سے وابستہ ہوچکا ہو اور آپ کے لیے  یہ بھی خدشہ ہو کہ  اگر آپ  نے اس کے علاوہ   کسی  اور عورت  سے منگنی  کی تو  آپ کا باپ  آپ کو اس سے بھی شادی سے منع  کردے گا کیونکہ بعض  لوگوں کے دل میں غیرت اور حسدہوتا ہےحتی کہ اپنے بیٹوں کے لیے بھی جس کی وجہ سے  وہ انھیں اپنے ارادوں کے مطابق عمل کرنے سے روکتےہیں۔۔۔بہرحال اگر  آپ کے لیے ایسا کوئی خدشہ ہے تو پھر  اس عورت  سے شادی  کرنے میں کوئی حرج نہیں خواہ آپ والد اس شادی کو پسند نہ کریں'ممکن ہے کہ شادی کے بعد وہ مطمئن  ہوجائیں اور ان کادل صاف ہوجائے۔ہم آپ کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اس کام کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے لیے بہتر ہو۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص213

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ