سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) کیا مردوں کی طرح عورتوں پر ختنہ واجب ہے؟

  • 1007
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 7736

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مردوں اور عورتوں کے ختنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ختنے کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے۔ صحیح ترین قول یہ ہے کہ ختنہ مردوں کے حق میں واجب اور عورتوں کے حق میں سنت ہے اور دونوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے حق میں ختنہ میں ایک ایسی مصلحت ہے جس کا نماز کی شرطوں میں سے ایک شرط، یعنی طہارت سے تعلق ہے کیونکہ قلفہ باقی رہنے کی صورت میں حشفہ کے سوراخ سے نکلنے والا پیشاب قلفہ میں باقی رہ جاتا ہے اور وہ جلن یا سوزش کا سبب بن جاتا ہے یا بے ختنہ انسان جب بھی حرکت کرتا ہے تو اس سے پیشاب خارج ہو کر نجاست کا سبب بنتا رہتا ہے۔ عورت کے ختنہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ ختنہ عورت کی شہوت کم  کر دیتا ہے۔ لہذا عورت کے لئے یہ طلب کمال ہے اور ایسی چیز نہیں جس کے نہ کرنے سے نقصان ہو۔ علماء نے وجوب ختنہ کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ اس سے ہلاکت یا بیماری کا اندیشہ نہ ہو اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو پھر ختنہ واجب نہیں ہے کیونکہ واجبات عجز، یا خوف ہلاکت یا نقصان کی صورت میں واجب نہیں رہتے۔ مردوں کے حق میں وجوب ختنہ کے دلائل حسب ذیل ہیں:

٭     متعدد احادیث میں یہ آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے والوں کو ختنہ کا حکم دیا،[1] اور اصول یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔

٭     ختنہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین امتیازی بات ہے حتیٰ کہ مسلمان معرکوں میں اپنے شہداء کو ختنوں ہی سے پہچانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ختنہ ہی ایک امتیازی علامت ہے اور جب یہ امتیازی علامت ہے تو کافر اور مسلمان میں امتیاز کے وجوب کے پیش نظرختنہ واجب ہے۔ اسی لیے کفار کے ساتھ مشابہت کو حرام قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ)) (سنن ابي داؤد، اللباس، باب فی لبس الشہرة، ح:۴۰۳۱۔)

’’جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

٭     ختنہ بدن کے کچھ حصے کو کاٹنے کا نام ہے اور بدن کے کسی حصے کو کاٹنا حرام ہے اور حرام کو کسی واجب شے ہی کے لیے مباح قرار دیا جاسکتا ہے، لہٰذا ختنہ واجب ہے۔

٭     (اگر کوئی بچہ یتیم ہے تو ظاہر ہے اس کے) ختنے کا اہتمام اس کا وارث کرتا ہے اس کے وارث کا یہ تصرف اس یتیم پر اور اس کے مال پر زیادتی ہے کیونکہ وہ ختنہ کرنے والے کو اجرت دے گا اور اگر ختنہ واجب نہ ہوتا تو اس کے مال اور بدن پر یہ زیادتی جائز نہ ہوتی۔ ان نقلی اور نظری دلائل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے حق میں ختنہ واجب ہے۔

عورتوں کے ختنہ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، جن میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ ختنہ صرف مردوں کے لیے واجب ہے۔ عورتوں کے لیے نہیں اور اس کے بارے میں ایک ضعیف حدیث ہے:

((اَلْخِتَانُ سُنَّۃ فی حقٌ الرِّجَالِ،و مَکْرُمَة فی حقٌ لِلنِّسَائِ)) (مسند احمد: ۷۵/۵)

’’ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے حق میں اعزاز واکرام ہے۔‘‘

اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس باب میں فیصلہ کن ہوتی۔

 


[1]              مسند الامام احمد: ۳/ ۴۱۵۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ198

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ