سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(700) تحقیق کے لئے ملزم کو مارنا

  • 10084
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 1163

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا تحقیق و تفتیش کے دوران ملزم کو مارنا شرعاً جائز ہے تاکہ وہ اعتراف کرے؟ کیا اسلام میں پیشۂ وکالت جائز ہے ؟ کیا مجرم کی طرف سے دفاع جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر الزام قوی اور اس کی علامات واضح ہوں تو ملزم کو مارنا جائز ہے لیکن مطلق الزام کی بنیاد پر مارنا یا سزا دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص سزا یا جبر کی وجہ سے مجبور ہو کر اقرار کرے تو اس کا اقرار حد اور اس حق کے لینے کا موجب نہیں ہے جس کا اس نے اقرار کیا ہو، اگر قرآئن واضح ہوں  تو حاکم ان کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔

وکالت ایک حق خاص کے بارے میں خصوصیت ہے، لہٰذا صاحب حق کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو اپنا وکیل مقرر کرے جو اس کی طرف سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ خود عجز یا جہالت وغیرہ کی وجہ سے جھگڑا نہیں کر سکتا لیکن وکیل کے لئے یہ لازم ہے کہ وکالت سے قبل وہ مؤکل کی خیر خواہی کرے اور اسے اس کے حق اور فرض سے آگاہ کر دے اور اگر اسے یہ  معلوم ہو کہ اس کا مؤکل ظالم یا مجرم ہے تو پھر اس کی طرف سے دفاع کرنا حرام ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ فیس کیوں نہ دے کیونکہ اس میں باطل کی نصرت اور ظالم کی تائید و حمایت ہے جو کہ حرام ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص558

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ