سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(682) امتحان میں کامیاب ہونے کی صورت میں جانور ذبح…

  • 10067
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1019

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے امتحان سے پہلے ایک دن یہ نذر مانی تھی کہ اگر میں چھٹی جماعت سے پاس ہو کر ساتویں جماعت میں چلا گیا تو ایک جانورذبح کروں گا۔ میں کامیاب تو ہو گیا لیکن پہلے مرحلے میں نہیں (بلکہ) دوسرے مرحلہ میں تو کیا اس صورت میں بھی مجھے جانور ذبح کرنا چاہئے یا نہیں؟ اس بات کو چار سال ہو گئے ہیں اور میں نے ابھی تک نذر کو پورا نہیں کیا۔ اسی طرح کی نذر میں نے یہ بھی مانی تھی کہ اگر میں مڈل سکول سے کامیاب ہو کر ہائی سکول میں پہنچ گیا تو جانور ذبح کروں گا تو کیا اس امتحان سے کامیابی کی صورت میں مجھے ایک جانور ذبح کرنا ہوگا یا دو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آپ نے مطلق نذر مانی تھی اور پہلے مرحلہ میں کامیابی کی نیت نہیں کی تھی تو پھر آپ نذر پوری کریں‘ جانور ذبح کر کے اللہ کیلئے فقراء میں تقسیم کر دیں اور اس میں سے کچھ بھی آپ یا آپ کے اہلخانہ نہ کھائیں کیونکہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے:

«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ۔ ( صحیح بخاری)

’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی توا سے اس کی اطاعت کرنی چاہئے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانی توا سے اس کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے‘‘۔

اور اگر آپ نے پہلے مرحلہ میں کامیابی کی صورت میں نذر مانی تھی اور آپ دوسرے مرحلہ میں کامیاب ہوئے تو اس صورت میں آپ پر کچھ لازم نہیں ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ۔ ( صحیح بخاری)

’’تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘۔

اسی طرح جب آپ ہائی سکول میں پاس ہو جائیں تو اپنی نذر پوری کریں کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی مذکورہ بالا حدیث کا یہی تقاضا ہے۔ اگر پہلی یا دوسری نذر سے آپ کی نیت اپنے اہل خانہ‘ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو کھلانے کی ہے تو اپنی نیت کے مطابق عمل کریں‘ جیسا کہ حضرت عمر فاروقؓ سے مروی مذکورہ حدیث کا تقاضا ہے۔

بھائی! آپ کو چاہئے کہ دوبارہ نذر نہ مانیں کیونکہ نذر تقدیر الٰہی کو نہیں ٹال سکتی اور نہ ہی یہ کامیابی کے اسباب میں سے ہے۔ نبی اکرمﷺ نے نذر ماننے سے منع کرتے ہوئے فرمایاہے:

«انه لا يأتي بخير وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ"( صحيح بخاري)

’’یہ کچھ بھلائی لے کر نہیں آتی‘ ہاں البتہ اس سے بخیل سے مال ضرور نکلوا لیا جاتا ہے‘‘۔

جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابن عمرؓ سے مروی حدیث میں ہے۔ ہم اپنے لیے اور آپ کیلئے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی توفیق کی دعا کرتے ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص544

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ