سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(677) جس طرح کی نذر مانی ہو‘ اسی طرح پورا کرنا ضروری ہے

  • 10062
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1076

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اللہ تعالیٰ کیلئے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری بیٹی کو شفا عطا فرما دی تو میں اللہ تعالیٰ کیلئے ایک بکری ذبح کروں گا۔ الحمدللہ! اب بیٹی شفایاب ہو گئی ہے تو کیا میرے لیے اس ذبیحہ کی قیمت کرنا جائز ہے؟ کیونکہ فقیر تو گوشت کے بجائے مال کو ترجیح دیتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ پر واجب ہے کہ اپنی نذر کو پورا کریں‘ اس بکری کو ذبح کریں‘ جس کی نذر مانی تھی اور تقرب و طاعت الٰہی کے حصول اور نذر کو پورا کرنے کیلئے اسے فقراء پر صدقہ کر دیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ۔ ( صحیح بخاری)

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اسی کی اطاعت کرنی چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانے توا سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے‘‘۔

لہٰذا آپ کیلئے قیمت کو صدقہ کرنا جائز نہیں بلکہ واجب یہ ہے کہ بکری ذبح کریں جیسا کہ آپ نے نذر مانی تھی۔ اگر آپ نے یہ نیت کی تھی کہ اس کے گوشت کو آپ اور آپ کے اہلخانہ کھائیں گے یا آپ اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو دعوت پر بلائیں گے تو پھر نیت کے مطابق عمل کریں وار اس صورت میں اسے فقراء میں تقسیم کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ۔ ( صحیح بخاری)

’’تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘۔

ہم آپ کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ آئندہ نذر نہ مانیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«" لَا تَنْذِرُوا، فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ"( صحيح مسلم)

’’نذر نہ مانو کیونکہ نذر تقدیر الٰہی کو تو نہیں ٹال سکتی‘ ہاں البتہ اس کے ساتھ بخیل کے مال میں سے کچھ ضرور نکال لیا جاتا ہے‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص541

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ