سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(546) تاکید کیلئے تین بار طلاق کی قسم

  • 10031
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1920

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو ایک طلاق کی تین بار قرسم دی کہ وہ یہ کام ضرور کرے لیکن اس نے نہ کیا تو کیا یہ قسم اس کی ذات کی حد تک اس کی بیوی کے بارے میں معتبر اور نافذ ہوگی؟ اور اگر یہ قسم نافذ نہیں تو اسلام کا اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص تین طلاقوں کے ساتھ کسی کو قسم دے کہ وہ یہ کام کرے یا یہ کام نہ کرے یا یہ کہ اگر میں فلاں کے ولیمہ میں گیا تو مجھ پر تین طلاقیں واجب ہیں یا یہ کہے کہ میں فلاں سے کلام نہیں کروں گا یا اس طرح کے کسی بھی اور کام پر قسم کھا لے تو اس میں تفصیل ہے اگر اس طرح طلاق کے ساتھ قسم کھانے سے مقصد تاکید اور بات میں زور پیدا کرنا ہے۔ مقصود طلاق دینا نہیں تو اس کا حکم قسم کا ہوگا اور اسے پورا نہ کرنے کی صورت میں بھی قسم کا کفارہ لازم ہوگا اور وہ ہے دس مسکینوں کو کھانا کھلایا انہیں کپڑے دینا یا ایک غلام کو آزاد کرنا اور اگر اس سے عاجز ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھنا۔

اور اگر اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ چیز نافذ نہ ہوئی تو طلاق واقع ہو جائے گی تو اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہو جائے گی خواہ اس نے تین طلاقوں کے الفاظ ہی استعمال کیے ہوں۔ صحیح قول یہی ہے۔ عدت کے اندر اندر اسے رجوع کا حق بھی حاصل ہوگا اور اگر رجوع کرنے سے قبل عدت ختم ہو گئی تو پھر معتبر شروط کے ساتھ نکاح جدید کے بغیر یہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہو گی۔ نبی اکرمﷺ کی صحیح حدیث ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں‘ ایک (رجعی) طلاق شمار ہوتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ابن عباسؓ سے ثابت ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص520

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ