سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(530) حلال میں حرام کی آمیزش…

  • 10015
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 959

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں یہاں برطانیہ میں بعض مسلمانوں نے حلال و حرام طریقوں سے مال جمع کیا ہے کیونکہ وہ تاجر ہیں اور ان کی تجارت میں شراب اور سور کا گوشت بھی شامل ہے اور ان میں سے کسی کے مال میں حرام کی مقدار زیادہ ہے اور کسی کے مال میں کم‘ تو کیا ہم مسلمانوں کیلئے ان سے میل جول رکھنا اور جب وہ دعوت دیں تو ان کے کھانے کو کھانا جائز ہے؟ کیا مسجد وغیرہ کے سلسلہ میں ان لوگوں کے عطیات قبول کیے جا سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاً: آپ کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو سمجھائیں اور انہیں حرام اشیاء کی تجارت اور حرام کی کمائی کے بدترین انجام سے ڈرائیں اور اہل خیر میں سے اپنے ان بھائیوں کے ساتھ تعاون کریں جو انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے اور برائیوں کا ارتکاب کرے اس کیلئے اللہ کی گرفت بہت سخت اور اس کا عذاب بہت شدید ہے نیز انہیں بتایا جائے کہ دنیا کا سامان بہت تھوڑاہے اور آخرت بہتر بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی بھی ہے۔

اگر وہ ان باتوں کو قبول کر لیں تو الحمدللہ! اور اس طرح وہ تمہارے دینی بھائی ہوں گے پھر انہیں نصیحت کرو کہ اگر انہیں علم ہے تو غصب شدہ اشیاء ان کے اصل مالکوں کو واپس لوٹائو او رپھر نیک اعمال بھی کثرت سے بجا لائو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور تمہارے برے اعمال کو نیکیوں میں تبدیل کر دے‘ اس کے بعد تمہارے لیے ان سے میل جول اور اخوت کا معاملہ‘ ان کی دعوت کو قبول کرنا اور مساجد میں تعمیر و تزئین کے لئے ان سے عطیات وغیرہ لینا جائز ہوگا کیونکہ توبہ کرنے اور حسب امکان حقداروں کو ان کے حق لوٹا دینے سے ان کے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُ‌هُ إِلَى اللَّهِ...﴿٢٧٥﴾... سورة البقرة

’’تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ پہلے ہو چکا وہ اس کا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘‘۔

ثانیاً: اگر نصیحت کرنے اور سمجھانے کے بعد بھی وہ اپنے حرام کاموں ہی پر اصرار کریں تو انہیں اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ دینا چاہئے۔ ان کی دعوت اور ان کے عطیات کوقبول نہیں کرنا چاہئے تاکہ انہیں سمجھایا جا سکے اور ان کے باطل کا انکار کیا جا سکے شاید کہ وہ اس طرح ہی سمجھ جائیں اور منکر اور حرام کاموں کو چھوڑ دیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص499

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ