سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(488) تارک نماز کا ذبیحہ

  • 9966
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1127

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا تارک نماز کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی ایسا شخص جانور ذبح کرے جو نماز نہیں پڑھتا تو اسے کھانا حلال نہیں ہے کیونکہ اہل علم کے راجح قول کے مطابق تارک نماز کافر ہے اور وہ اپنے اس کفر کی وجہ سے ملت سے خارج ہو جات اہے۔ لہٰذا اس کا ذبیحہ حلال نہیں کیونکہ ذبیحہ صرف مسلمان یا کتابی کا حلال ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ ۖ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم... ﴿٥﴾... سورة المائدة

’’آج تمہارے لیے یہ سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے‘‘۔

اہل کتاب کے کھانوں سے مراد ان کے ذبیحے ہیں‘ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے علاوہ دیگر تمام کفار کے ذبیحے حلال نہیں ہیں۔ مسلمان اور کتابی جب کوئی جانور ذبح کرے تو وہ حلال ہے خواہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ اس نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:

«سموا عليه أنتم وكلوه » ( صحيح بخاري)

’’تم خود اللہ کا نام لے لو اور اس کو کھا لو‘‘۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ (یہ سوال ان لوگوں کے بارے میں تھا) جو کفر کو نئے نئے چھوڑ کر آتے تھے۔ ان لوگوں کے ذبیحہ کو جن کے بارے میں ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں‘ نبی اکرمﷺ نے حلال قرار دیا ہے کیونکہ فعل جب اپنے اہل سے صادر ہو تو اس فعل کی کیفیت‘ شروط اور موانع کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا کیونکہ اس میں اصل صحت ہے‘ مسلمان یہودی اور نصرانی کے ذبیحہ کے بارے میں سوال نہیں ہوگا کہ اس نے کس طرح ذبح کیا ہے؟ اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ نبی اکرمﷺ نے یہودیوں کے ذبیحوں کو کھایا اور ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ انہوں نے کس طرح ذبح کیا تھا۔ جس قاعدہ کی طرف ہم نے اشارہ کیا یہ بہت مفید ہے یعنی جو شخص کسی فعل کا اہل ہو تو اس کا فعل صحیح ہے الایہ کہ اس کے فاسد ہونے کی دلیل موجود ہو۔ اگر ہم مسلمانوں کے لئے یہ لازم قرار دے دیں کہ وہ فاعل کے فعل کے بارے میں سوال کریں کہ کیا تمام شروط پوری تھیں‘ موانع ختم تھے تو ہم نبی اکرمﷺ اور حضرات صحابہ کرامؓ کی سنت کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی مشقت میں مبتلا کر دیں گے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو اس کا ذبیحہ حرام ہے‘ اسے نمازیوں یا غیر نمازیوں کیلئے کھانا حلال نہیں ہے‘ اسی طرح جو شخص فریضہ نماز کا منکر ہو اس کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہے کیونکہ وہ کافر ہے الایہ کہ وہ نیا نیا دائرہ اسلام میں داخل ہوا ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ نماز واجب ہے یا غیر واجب! تو انکار وجوب کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائیگا حتیٰ کہ اس کے لیے حق واضح کر دیا جائے اور اگر حق واضح کیے جانے کے بعد بھی وہ جوب نماز کا انکار کرے تو اس پر بھی یہی حکم لگایا جائے گا جو اس انکار کا تقاضا کرتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص451

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ