سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(471) مینڈک قتل کرنے اور کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے

  • 9949
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4610

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مینڈک قتل کرنا ناجائز ہے؟ کیا مینڈک بری و بحری حیوانات میں شمار ہوتا ہے؟ اگر بری ہو تو کیا پھر بھی اسے ذبح کیے بغیر کھانا جائز ہے کیونکہ لوگ اسے ذبح نہیں کرتے اور نہ ہی اسے ذبح کرنا ممکن ہے کیونکہ اس کی گردن ہی نہیں ہے؟ لوگ کھانے کیلئے اس کے پائوں کاٹ لیتے اور باقی حصے کا بیان پھینک دیتے ہیں اور اگر یہ بحری ہو تو پھر اسے کیوں نہ اس سمندری شکار میں شمار کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرا ردیا ہے؟ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مینڈک کے قتل کی ممانعت میں وارد تمام احادیث ضعیف ہیں‘ آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مینڈک کھانے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جائز قرار دینے والوں میں امام مالک بن انسؒ اور ان کے ہم نوا اہل علم ہیں اور ناجائز قرار دینے والوں میں امام احمدؒ اور ان کے ہم نوا اہل علم ہیں۔ جائز قرار دینے والوں کا استدلال آیت کریمہ:

﴿أُحِلَّ لَكُم صَيدُ البَحرِ‌ وَطَعامُهُ مَتـٰعًا لَكُم وَلِلسَّيّارَ‌ةِ... ﴿٩٦﴾...سورة المائدة

’’تمہارے لیے دریا کی چیزوں کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کے لئے‘‘۔

اور دریا کے بارے میں نبیﷺ کی اس حدیث:

«هوا الطهور ماؤه الحل ميتته» (سنن أبي داؤد)

’’اس کا پانی پاک اور اس میں مرا ہوا جانور حلال ہے‘‘۔

کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ مینڈک بھی دریائی شکار ہونے کی وجہ سے اس عموم میں داخل ہے اور جنہوں نے مینڈک کے کھانے کو ناجائز قرار دیا ہے انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے امام ابو دائودؒ نے ’’طب‘‘ اور ’’ادب‘‘ کے ابواب میں اور امام نسائیؒ نے ’’صید‘‘ کے باب میں باواسطہ ابن ابی ذئب عن سعید بن خالد بن سعید بن مسیب بن عبدالرحمن بن عثمان قرشیؓ روایت کیا ہے:

«أَنَّ طَبِيبًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضِفْدَعٍ، يَجْعَلُهَا فِي دَوَاءٍ فَنَهَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهَا » ( سنن أبي داؤد)

’‘ایک طبیب نے رسول اللہﷺ سے مینڈک کے دوا میں استعمال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا‘‘۔

امام احمد‘ اسحاق بن راہویہ اور ابو دائود طیالسیؒ نے اپنی اپنی ’’مسانید‘‘ میں اور امام حاکمؒ نے ’’مستدرک‘‘ کے ’’فضائل‘‘ اور ’’طب‘‘ کے ابواب میں عبدالرحمن بن عثمان تیمی نے اسے روایت کیا ہے اور امام حاکمؒ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری و مسلمؒ نے اسے بیان نہیں فرمایا۔ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ مینڈک کے بارے میں جو کچھ وارد ہے‘ اس میں سب سے زیادہ قوی یہی حدیث ہے۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مینڈک کھانا حرام ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے اور قتل حیوان کی ممانعت یا تو اس کے احترام کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ آدمی کو قتل کرنا اس کے احترام کی وجہ سے منع ہے یا یہ ممانعت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اسے کھانا حرام ہوتا ہے جیسا کہ مینڈک کو قتل کرنا اس لیے حرام ہے کہ اسے کھانا حرام ہے۔

اس حدیث پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں ایک راوی سعید بن خالد ہے جسے امام نسائیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابن حبانؒ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ یہ مدنی ہیں اور قابل استدال ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص427

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ